کورونا وائرس کا مختلف افراد پر مختلف اثر کیوں؟
کورونا وائرس کے حوالے سے ایسی خبریں آپ نے تواتر سے دیکھی ہوں گی کہ ہلاک ہونے والا کوئی صحت مند شخص تھا اور عمر بھی زیادہ نہیں تھی۔
سائنسی مطالعاتی رپورٹیں بتا رہی ہیں کہ اس وائرس کا نشانہ بننے والے افراد میں سے بیس فیصد میں سنگین علامات پیدا ہوتی ہیں۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ کئی افراد میں کسی بھی طرح کی علامات ظاہر ہی نہ ہوئی ہوں یا علامات بہت معمولی نوعیت کی ہوں اور اس وائرس سے متاثرہ افراد کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو۔ یہ وہ خوش قسمت افراد ہی جن کے جسموں میں وائرس پھیلنے کے باوجود کسی بھی طرح کی سنگین صورت حال کا باعث نہیں بنتا مگر یہ افراد بھی اس وائرس کے پھیلاؤ کا ممکنہ ذریعہ ہو سکتے ہیں۔
انہی "خاموشی سے وائرس پھیلانے والوں" کو دیکھتے ہوئے اب ماہرین یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ تمام افراد گھروں سے نکلتے ہوئے ماسک کا استعمال کریں۔ اس سے قبل ماہرین ماسک فقط انہیں افراد کے لیے ضروری قرار دیتے رہے ہیں، جن میں اس وائرس کی علامات ہوں، تاکہ وہ یہ وائرس پھیلانے کا باعث نہ بنیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وائرس ایک ہی ہے، تو مختلف افراد پر اس کا اثر مختلف کیوں ہے؟ کیوں کچھ افراد اس وائرس کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور کچھ افراد میں علامات تک ظاہر نہیں ہوتیں؟ کچھ افراد کو وینٹی لیٹرز کے ذریعے مصنوعی سانس تک کی ضرورت پڑ جاتی ہے اور کچھ فقط معمولی کھانسی کے بعد چند روز میں ٹھیک ہو جاتے ہیں؟
اس سے قبل کہ ہم اس بارے میں معلومات آپ سے بانٹیں، یہ ذہن نشین رکھیے کہ یہ وائرس نیا ہے اور اس پر تحقیق کی جا رہی ہے اس لیے ماہرین کی یہاں دی جانے والی رائے ہو سکتا ہے مستقبل میں اس وائرس کے حوالے سے سامنے آنے والی کسی حتمی رائے سے مختلف ہو۔ کیوں کہ متعدی بیماریوں کے امریکی ماہر ڈاکٹر اوٹوینگ کے مطابق اس وقت اس وائرس پر انتہائی تیز رفتاری سے تحقیق جاری ہے اور ہر آنے والے گھنٹے میں نئی معلومات سامنے آ رہی ہیں۔
اوٹو ینگ کا کہنا ہے کہ کورونا بھی دیگر وائرسوں ہی کی طرح کا ایک وائرس ہے، جو جینیاتی معلومات پر مبنی ہوتا ہے اور جس کا کام انسانی خلیے کو ہائی جیک کر کے جینیاتی مواد سے اپنی نقل تیار کرنا ہوتا ہے۔
متعدی بیماریوں کے ایک اور ماہر ڈاکٹر ایڈورڈ جان لوپیز کے مطابق ایسا بالکل نہیں کہ تمام افراد میں کورونا وائرس انفیکشن کا باعث بنتا ہو لیکن اگر کسی شخص میں یہ وائرس انفیکشن کا باعث بنتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وائرس نے وہ خلیہ تلاش کر لیا ہے، جس کے ذریعے یہ بیماری میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ انفیکشن ہو جانے کے بعد یہ وائرس نہایت تیزی سے اپنی کاپیاں تیار کرنا شروع ہو جاتا ہے، جو خون کے ذریعے پھیلتی چلی جاتی ہیں۔
کورونا وائرس ہمیں بیمار کرتا کیسے ہے؟
یہ وائرس اصل میں انسانوں کو دو طریقوں سے بیمار کرتا ہے۔ ابتدا میں بخار، کھانسی یا دیگر علامات ظاہر ہوتی ہیں، جس میں یہ وائرس پیپھڑوں کے خلیات کو براہ راست نقصان پہنچاتا ہے۔ کچھ افراد اس مقام سے صحت مند ہو جاتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وائرس کی وجہ سے پیپھڑوں یا دیگر اعضاء میں سوزش سنگین ہو، ایسی صورت میں مدافعاتی نظام کی جانب سے انتہائی جارحانہ ردعمل کسی مریض کو موت کے منہ میں لے جا سکتا ہے۔ اس لیے مختلف افراد کے لیے یہ بیماری مختلف اثرات کی حامل ہے۔
اب تک کے ڈیٹا کے مطابق پچاس فیصد افراد میں یہ وائرس یا تو کسی بھی طرح کی علامات کا باعث ہی نہیں بنتا یا پھر بہت معمولی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور چند روز میں کوئی شخص روبہ صحت ہو جاتا ہے۔ کئی افراد کو تو یہ علم تک نہیں ہوتا کہ وائرس ان پر حملہ آور ہو چکا ہے۔
مزید تیس فیصد میں باقاعدہ طور پر علامات ظاہر ہوتی ہیں، جو درمیانے درجے کی ہوتی ہیں، مگر بیس فیصد افراد ایسے بھی ہوتے ہیں، جن میں علامات سنگین ہوتی ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں، جنہیں ہسپتال جانا پڑتا ہے۔
ایک وائرس مختلف افراد کو مختلف طرح سے متاثر کیوں کرتا ہے؟
اس بارے میں اب تک کوئی واضح بات سامنے نہیں آئی ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ علامات کی سنگینی میں پہلے سے موجود امراض مثلاﹰ ذیابطیس، عارضہ قلب، بلند فشارِ خون یا پھیپھڑوں کی بیماریاں اور عمر اہم دیکھے گئے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وائرس کی وجہ سے ہلاک ہونے والے افراد میں بیس سے تیس برس اور پچاس برس کی عمروں والے بھی شامل ہیں۔ لیکن چوں کہ معمر افراد عمومی طور پر پہلے ہی مختلف بیماریوں سے نبردآزما ہوتے ہیں، اس لیے عمر کے اس گروپ میں شامل افراد کو یہ وائرس زیادہ متاثر کرتا ہے۔
لیکن ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی کم عمر افراد اس وائرس سے شدید متاثر دیکھے گئے ہیں۔ ممکنہ طور پر اس کا تعلق مختلف افراد کے مختلف مدافعاتی نظاموں سے ہے۔ اوٹو ینگ کا کہنا ہے کہ مدافعاتی نظام جسم کی پولیس اور وائرس ایک مجرم کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر پولیس جلد مجرم کو قابو میں کر لے، تو شہر کا نقصان کم ہوتا ہے، لیکن اگر یہ مجرم ایک بڑا گروہ بنانے میں کامیاب ہو جائے، تو اس کے خاتمے میں شہر اور پولیس دونوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
ماہرین کے مطابق تمام ہی وائرس مختلف افراد کو مختلف انداز سے متاثر کرتے ہیں، تاہم اس کورونا وائرس کی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اب تک بچوں میں اس وائرس کے اثرات کم دیکھنے میں آئے ہیں، اور اسی معاملے پر تحقیق بھی کی جا رہی ہے۔
سائنسی ماہرین کے مطابق اس وائرس کے اثرات کے حوالے سے جین کا کردار بھی نہایت اہم ہو سکتا ہے۔ متعدد بین الاقوامی محققین جینیات اور کووِڈ انیس کے تعلق پر تحقیق کر رہے ہیں۔ جینیاتی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس ACE2 ریسپٹرز کے ساتھ خود کو نتھی کر کے خلیات میں داخل ہوتا ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ریسپٹرز میں معمولی تبدیلی کے ذریعے اس وائرس کو خلیے میں داخلے سے روکا جا سکتا ہے۔
سائنس میگزین سے گفتگو کرتے ہوئے یونیورسٹی آف ہیلسنکی کی مالیکیولر میڈیسن فن لینڈ کی ماہر جینیات اینڈریا گانا نے کہا، 'ہم مختلف ممالک میں اس وائرس کے کلینکل نتائج مختلف دیکھ رہے ہیں، یہ خود اس معاملے میں جینیاتی عمل داری کے شبے کے اعتبار سے ایک بڑے سوال کا باعث ہے۔'
پھر مختلف محققین خون کے گروپ، جو جین کی وجہ سے طے ہوتے ہیں، اور کووِڈ انیس کی علامات کے درمیان تعلق پر بھی تحقیق کر رہے ہیں۔ چین میں ووہان اور شینزہن میں ہونے والے ابتدائی مطالعاتی جائزے میں کہا گیا ہے کہ بلڈ گروپ اے سے وابستہ افراد میں بلڈ گروپ او کے حامل افراد کے مقابلے میں اس وائرس کے اثرات شدید نوعیت کے دیکھے گئے ہیں۔ تاہم اس تحقیقی جائزے سے وابستہ سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اس بارے میں کوئی بھی حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہو گا۔
چینی محققین نے ہسپتالوں میں داخل ہونے والے کووِڈ انیس کے مریضوں کے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان میں سے 58 فیصد مریض مرد تھے۔ صنفی اعتبار سے قریب یہی شرح اٹلی اور امریکا میں بھی دیکھی گئی ہے۔ بعض ماہرین تاہم مردوں میں کووِڈ انیس کی بلند شرح کی وجہ خواتین کے مقابلے میں مردوں کے مختلف سماجی رویوں کو قرار دے رہے ہیں، جن میں ان مردوں میں زیادہ سماجی میل ملاپ اور خواتین کے مقابلے میں کم ہاتھ دھونے جیسے رویے شامل ہیں۔ لیکن ماہرین کا یہ کہنا بھی ہے کہ اس کی ایک وجہ خواتین کے مقابلے میں مردوں کا کم زور مدافعتی نظام بھی ہو سکتی ہے۔ محققین کے مطابق خواتین میں دو ایکس کروموسومز مختلف بیماریوں سے تحفظ کے لحاظ سے مردوں کے مقابلے میں انہیں بہتر بناتے ہیں۔
اس کے علاوہ ماہرین مختلف افراد میں پہلے سے امیونائزیشن کی ادویات کے استعمال پر بھی غور کر رہے ہیں۔ محققین کے مطابق ٹی بی کے خلاف دی جانے والی ویکسین بیسیلس کیمیٹ گیورین (Bacillus Calmette-Guerin or BCG) جن ممالک میں مروجہ ہے، وہاں اس وائرس سے کم ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ امریکا، اٹلی اور ہالینڈ جہاں بچوں کے لیے ویکسینیشن لازمی نہیں ہے یا جہاں یہ پروگرام نئے ہیں اور معمر افراد کو یہ ویکسین نہیں دی گئیں، وہاں اس وائرس سے ہلاکتیں زیادہ ہوئی ہیں۔
ماہرین اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ بتا چکے ہیں کہ ٹی بی کے خلاف دی جانے والی بی سی جی ویکسین ممکنہ طور پر بلیڈر کے سرطان اور لیپروسی جیسی بیماریوں سے بھی تحفظ میں معاون رہی ہے۔ ایک تازہ مطالعاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شاید یہ ویکسین کووِڈ انیس کی صورت میں پھیپھڑوں میں انفیکشن کی شدت میں کمی کا باعث ہو۔
Comments are closed on this story.